تمہیں تو، یاد ہی ہوگا |
وہ جو ہم، پہلے پہل |
ملے تھے |
تمہیں تو یاد ہی ہوگا ۔۔۔۔ |
جب ہماری دبی چاہت کے حسیں پھول |
دلِ بیزار کے گلشن میں |
کھِلے تھے |
تمہیں بھی زندگی نے گھیر رکھا تھا |
میں نے بھی اِس کے بدن کا |
ریشہ ریشہ |
اُدھیڑ رکھا تھا |
تب |
ہم نے اک دوسرے کو |
اپنی اپنی شبِ تاریک کی ساری |
وحشتیں، |
زندگی کے دو راہے پر |
ایک بے نام سے رشتے کے نام |
کر دیا تھا |
اور اسی سہمے سے انجان رشتے نے |
ہمیں پھر زندگی کی دلکشی کے |
حسیں منظر کو دکھائے تھے |
وہ حسیں منظر |
جسے اس وقت کے جنگل نے |
کہیں گم کر دیا تھا |
تمہیں تو یاد ہی ہوگا |
اب جو ہم اُس دو راہے کو |
ایک کرکے |
اس قدر دور نکل آۓ ہیں |
اب جو ہم اُن سبھی |
الجھنوں کو |
بھول کر |
ایک ہونے پر اتر ئے ہیں |
تو |
اب یہ بے نام سہانا رشتا |
چاہتا ہے کوئی نام |
تو کیا |
ہم اسے بھی نام دے کر ان سبھی رشتوں جیسا |
کر دیں |
جس میں انکے انہیں ناموں نے |
انہیں پامال کیا |
کیا ضروری ہے۔۔ |
سبھی رشتوں کا ہو نام یہاں |
کچھ کو بے نام ہی تم دنیا میں رہنے دینا |
ہر محبت کا مقدر نہیں ہوتی منزل |
کچھ کو گمنام ہی تم دنیا میں رہنے دینا |
معلومات