---------اے قلم کے سوداگر-------
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
درمیاں دو بھائی کے نفرتیں نہ پیدا کر
تم نے کل جو بویا تھا آج لہلہایا ہے
خون بھائی بھائی کا دیکھو کرنے آیا ہے
جب چمن کا بلبل ہی زندہ رہ نہ پاۓ گا
پھول جب کھلے گا تو کون مسکراۓ گا
جھوٹ کو یوں پھیلا کر سچ کو تو نہ میلا کر
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
جب گھٹاںٔیں نفرت کی اس چمن پہ چھائی تھی
بستیاں محبت کی خون میں نہائی تھی
جب کلیجے کے ٹکڑے کٹ رہے تھے شاخوں سے
رو رہی تھی ممتاںٔیں تب لپٹ کے ماؤں سے
کوکھ کو تو ممتا کی اس قدر نہ سونا کر
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
رنگ بدلے رہتی ہے آگ ہے نہ پانی ہے
نفرتی فضاؤں کی بس یہی کہانی ہے
آگ جب یہ پھیلے گی تم بھی زد میں آؤ گے
پھر جھلسنے سے خود کو کس طرح بچاؤ گے
عینکوں سے دہشت کی ملک تو نہ دیکھا کر
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
بے زبان لوگوں کی تم زبان ہو یارو
بے کسوں کے تیروں کی تم کمان ہو یارو
کیوں نشانہ تم آخر اِن پہ ہی لگاتے ہو
عظمتیں صحافت کی خاک میں ملاتے ہو
بے کسوں کے چارہ گر حق ادا تو اپنا کر
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
بےحس کلیم

0
42