غم جب اپنے فغاں سے روٹھ گیا
میں بھی پیاسا، کنواں سے روٹھ گیا
پھول کا درد کوئی کیا جانے
کس لیے باغباں سے روٹھ گیا
منزلوں کو تو یہ خبر ہی نہیں
راہرو کارواں سے روٹھ گیا
اے ستارو نہ جھلملاؤ اب
چاند ہی آسماں سے روٹھ گیا
میری آنکھوں کو روشنی دے کر
مرا سورج جہاں سے روٹھ گیا
لفظوں کو جوڑنے سے کیا ہوگا
شعر ہی جب زباں سے روٹھ گیا
اب نہ سوچو تم اک ذرا بےحس
کون کس سے کہاں سے روٹھ گیا

0
2