آ بیٹھ ذرا |
دلِ وحشی! تجھے کیوں؟ چین نہیں آتا کبھی |
کیوں تری روح بھٹکتی ہے دوانوں کی طرح |
کون سا بوجھ ترے سینے پہ ہے آن پڑا |
کیوں ترے باغ ہوۓ ،اجڑے مکانوں کی طرح |
تو، کہ ہر وقت چہکتا تھا دمکتا تھا کبھی |
تو، کہ جس میں کھِلے رہتے تھے حسیں خوابوں کے پھول |
تری سرمستی سے تھے رشک زدہ بادہ و جام |
تری مدمستی بنا دیتی تھی پتھر کو بھی دھول |
تری راہوں میں کبھی آۓ جو غم کے کانٹۓ |
تری چاہت نے اسے پھول بنا ڈالا تھا |
کیا تجھے یاد نہیں سخت رتوں میں بھی ترے |
قدموں کی چاپ کا انداز گرج والا تھا |
مانتا ہوں کہ لگی ہے ترے احساسوں کو ٹھیس |
اس بدلتی ہوئی دنیا نے رلایا ہے تجھے |
گھیر رکھا ہے تجھے وقت نے مجرم کی طرح |
اسکے بے رحم تھپیڑوں نے ستایا ہے تجھے |
اپنے دن رات کی ٹھوکر سے پریشاں ہے تو |
اپنی چاہت کی تباہی سے پشیماں ہے تو |
مگر اس درد کا حل یہ تری وحشت تو نہیں |
جل کے جینا ہی کوئی جینے کی صورت تو نہیں |
کیا ہو جو امڈ آیا ہے بلاۓ سیلاب |
ٹوٹی ہے کشتی پہ ٹوٹی ابھی ہمت تو نہیں |
تھم کے،پھیلے ہوۓ طوفاں کی صداؤں کو سن |
اپنی وحشت کے پرے ساحلوں کو دیکھ ذرا |
منتظر ہیں کئی بیتاب حسیں لہریں یہاں |
بھر کے آغوش میں انکو، ادھر آ، بیٹھ ذرا |
معلومات