فضائیں کتنی حسیں مستیاں بناتی ہے
وہ زلف کھول کے جب بدلیاں بناتی ہے
وہ اک جسے تھا سروکار صرف موتیوں سے
سنا ہے وہ کہیں اب سیپیاں بناتی ہے
وہ جو بناتی تھی گالوں پہ میرے سرخ نشان
اب اسکی یاد مری ہچکیاں بناتی ہے
جو لڑکی رنگ برنگے سے خواب بنتی تھی
وہ آجکل گلوں پر تتلیاں بناتی ہے
وہ شدتیں کہاں نزدیکیوں میں ہوتی ہیں
جو قربتیں یہ تری دوریاں بناتی ہے
بناتی ہے جو محبت یہ کھلکھلاتے خواب
تڑپ تڑپ کے وہی سسکیاں بناتی ہے

0
43