قدر روشنی کی اندھیروں میں ہے |
انا کیوں پھر اتنا اجالوں میں ہے |
ہے رندوں کی اب آبرو داؤ پر |
یہ مدہوشی جو ہوش والوں میں ہے |
شبِ وصل کا مارا ہوں دوستو |
شبِ ہجر تو میرے اپنوں میں ہے |
پڑھو مت خودی کا نصابی سبق |
جواب اس کا خود ہی سوالوں میں ہے |
سہارا جو اپنا بنا آپ ہی |
اندھیرا نہ پھر اسکی راہوں میں ہے |
نشے کی بہت سی ہیں قِسمیں مگر |
نظر اسکی لاکھوں کروڑوں میں ہے |
سحر لے کے آتی ہے سورج نیا |
اے بےحس تو گم کن خیالوں میں ہے |
بےحس کلیم |
معلومات