قدر روشنی کی اندھیروں میں ہے
انا کیوں پھر اتنا اجالوں میں ہے
ہے رندوں کی اب آبرو داؤ پر
یہ مدہوشی جو ہوش والوں میں ہے
شبِ وصل کا مارا ہوں دوستو
شبِ ہجر تو میرے اپنوں میں ہے
پڑھو مت خودی کا نصابی سبق
جواب اس کا خود ہی سوالوں میں ہے
سہارا جو اپنا بنا آپ ہی
اندھیرا نہ پھر اسکی راہوں میں ہے
نشے کی بہت سی ہیں قِسمیں مگر
نظر اسکی لاکھوں کروڑوں میں ہے
سحر لے کے آتی ہے سورج نیا
اے بےحس تو گم کن خیالوں میں ہے
بےحس کلیم

0
62