نظر کا تیری جو شامل یہ اضطراب نہ ہوتا
شراب ہوتا پر اِس میں نشے کا باب نہ ہوتا
سہانے پھولوں کی رنگت کبھی حسین نہ ہوتی
ترے لبوں کا گلابی اگر شباب نہ ہوتا
اسیر زلف سے پوچھے تو کوئی قید کی لذت
گرفتِ زلف نہ ہوتا تو کامیاب نہ ہوتا
ترے بدن کی تراشوں میں کائنات چھپی ہے
حسین اور بھی ہوتا جو بے حجاب نہ ہوتا
ترا جمال منور ہے نورِ عشق سے ہمدم
گر آفتاب نہ ہوتا تو ماہتاب نہ ہوتا
دبی دبی سی محبت جو آشکار نہ ہوتی
رکی رکی سی طبیعت میں آب و تاب نہ ہوتا
یہ شاعری جو نہ ہوتی گراس جہان میں بےحس
کوئی بھی راز نہ کھلتا حسیں بھی خواب نہ ہوتا

0
41