| خود کو دنیائے حقیقت سے گذر جانے دے |
| دل اگر ٹوٹ گیا ہے تو بکھر جانے دے |
| چلتے چلتے مرے پاؤں تو نہیں ہیں تھکے پر |
| کب سے ہوں راہ میں ہی میں مجھے گھر جانے دے |
| پارسائی کے نشے میں ہو گیا چور ہوں میں |
| لا شراب آج نشہ بھی یہ اتر جانے دے |
| بن گئی روح کی ، وہ چوٹ، پشیمانی اے دوست |
| رہنے دے زندہ ہی یہ اور نہ مر جانے دے |
| اے خدا میرے مجھے توڑ تو چاہے جتنا |
| لیکن اس ٹوٹے مقدر کو سنور جانے دے |
| چھین آنسو کو نہ میرے نہ بنا اتنا کٹھور |
| روتے کو دیکھ مری آنکھیں بھی بھر جانے دے |
| کھلیں گے راز کئی زندگی کے اے بےحس |
| تو خیالوں سے تو آگے یہ نظر جانے دے |
| بےحس کلیم |
معلومات