جام شیشے میں ہے دم بدم ساقیا |
اب تو رندوں پہ کر دے کرم ساقیا |
صبر کی سرحدیں ٹوٹنے ہیں لگیں |
پینے والوں کا نکلے نہ دم ساقیا |
----------------- |
تیرے مقتل میں یہ جاں نثار آئے ہیں |
سن کے دریا دلی بے شمار آئے ہیں |
جاں ہتھیلی پہ لیکر ہیں بیٹھے سبھی |
تیر کے اب نہ روکو قدم ساقیا |
----------------- |
جام آنکھوں سے تیری ہے جس نے پیا |
پا گیا زندگی کا وہ ہر فلسفہ |
کر نہ اب اور پیاسوں کو تُو بیقرار |
تُجھکو پیاسے لبوں کی قسم ساقیا |
----------------- |
شوخ ایسی ہیں مے کی ترے مستیاں |
جیسے بل کھاتی گل کی حسیں پتیاں |
رنگِ مے کو دلوں میں اتر جانے دے |
دور رہ کے نہ ڈھا اب ستم ساقیا |
معلومات