کیا خلاؤں میں ہی فریاد سفر کرتی ہے |
کیوں دعا میری نہیں کوئی اثر کرتی ہے |
زندگی موت کا سامان اٹھاۓ سر پر |
روز جینے کا نیا ایک ہنر کرتی ہے |
جن کی ممتاؤں سے پھیلا ہے اجالا ہر سو |
تیرگی اب انہیں آنکھوں میں بسر کرتی ہے |
جگمگاتی تھی ہر اک رات کبھی جو میری |
اب وہی شام یہاں خونِ جگر کرتی ہے |
کوئی تقریر کہاں اتنا اثر ہے کرتی |
کام جو ایک وہ خاموش نظر کرتی ہے |
نہ اداس اِتنا ہو تنہائی سے تو اے بے حس |
رات اکیلی بھی یہاں اپنا صحر کرتی ہے |
معلومات