اب تری جدائی میں مجھکو ایسے جینا ہے
آنسوؤں کے ساگر کو بوند بوند پینا ہے
زندگی نئی تمکو جانِ جاں مبارک ہو
میرا کیا ہے میرا تو ڈوبتا سفینہ ہے
دل کے موسموں کا حال کیا کہوں میں تیرے بعد
ایک تپتے صحرا میں جون کا مہینہ ہے
پھینک تو دیا تم نے دل کی اس انگوٹھی کو
کیوں نہیں ہو لوٹاتے اس کا جو نگینہ ہے
تار پر میں جیون کی راگ چھیڑوں اب کیسے
انگلیاں بھی گھایل ہیں ٹوٹی بھی یہ وِینا ہے
وہ بھی دور تھا جب ہم آندھیوں سے لڑتے تھے
اب نہ وہ کلیجہ ہے اب نہ ہی وہ سینہ ہے

0
16