| مستی نہیں ہے ایسی کسی بھی شراب میں |
| جیسا نشہ ہے تیرے لبوں کے گلاب میں |
| اللہ یہ نگاہیں یہ نظروں کی بجلیاں |
| دیکھے سے انکے آتے ہیں سارے عذاب میں |
| جو بات ہے تری رخِ انور میں جانِ جاں |
| ہے آفتاب میں وہ نہ ہی ماہتاب میں |
| نازک ادائیں، شوخی، یہ خوشبو، یہ بانکپن |
| رنگینیاں گلوں کی ہے تیرے شباب میں |
| لہجے کو تیرے جانِ جاں کس کی مثال دوں |
| شعلوں میں وہ تپش ہے نہ ٹھنڈک وہ آب میں |
| الفت کی خوشبوؤں سے ہے مہکا ہر ایک باب |
| آکے بسی ہے جب سے تو دل کی کتاب میں |
| کردے تو قتل ایک ہی دم میں اے دلربا |
| گھایل نہ کر مجھے تو یوں رہ کے حجاب میں |
| تصویر سے نکل کے اب آغوش میں تو آ |
| بے چین کر نہ یوں ہمیں آ آ کے خواب میں |
| اک دو نہیں ہے بات کہ تحریر میں کروں |
| حیرانیاں بہت ہیں محبت کے باب میں |
معلومات