الزام اگر دریا پہ ڈالے نہیں جاتے |
کیوں ڈوبنے والے پھر اچھالے نہیں جاتے |
اے شمس مساوات پہ اپنی تو نظر کر |
گھرایسے بھی ہیں جن میں اجالے نہیں جاتے |
طوفان و حوادث تو گزر جاتا ہے لیکن |
بادل تری زلفوں کے یہ کالے نہیں جاتے |
رسوا ہی اگر ہونا مقدر ہے ہمارا |
کیوں بزم سے دنیا کی نکالے نہیں جاتے |
ہر داغِ جگر ویسے تو مٹ جاتا ہے لیکن |
دل پر لگے احساسوں کے چھالے نہیں جاتے |
اس قرضِ تمنا سے نِپٹ تو ہی اب اے دل |
ہم سے تو مہاجن ترے ٹالے نہیں جاتے |
کچھ لوگ اندھیروں کو بنا لیتے ہیں رہبر |
کتنوں سے اجالے بھی سنبھالے نہیں جاتے |
معلومات