وحشتِ دل کی یہ صحرائی نہیں جاتی ہے
بھیڑ میں رہ کے بھی تنہائی نہیں جاتی ہے
دل یوں برباد ہوا ہے کہ بہاروں میں بھی
رنج و غم کی کبھی پروائی نہیں جاتی ہے
ہم سمجھتے تھے کہ حالات بدل جائیں گے
پر تمناؤں کی انگڑائی نہیں جاتی ہے
کون رکھے گا مرے زخموں پہ مرہم بےحس
اس قبیلے میں وفا پائی نہیں جاتی ہے

76