وحشتِ دل کی یہ صحرائی نہیں جاتی ہے
بھیڑ میں رہ کے بھی تنہائی نہیں جاتی ہے
دل یوں برباد ہوا ہے کہ بہاروں میں بھی
رنج و غم کی کبھی پروائی نہیں جاتی ہے
ہم سمجھتے تھے کہ حالات بدل جائیں گے
پ تمناؤں کی انگڑائی نہیں جاتی ہے
کون رکھے گا مرے زخموں پہ مرہم بےحس
اس قبیلے میں وفا پائی نہیں جاتی ہے

57