| وحشتِ دل کی یہ صحرائی نہیں جاتی ہے |
| بھیڑ میں رہ کے بھی تنہائی نہیں جاتی ہے |
| دل یوں برباد ہوا ہے کہ بہاروں میں بھی |
| رنج و غم کی کبھی پروائی نہیں جاتی ہے |
| ہم سمجھتے تھے کہ حالات بدل جائیں گے |
| پر تمناؤں کی انگڑائی نہیں جاتی ہے |
| کون رکھے گا مرے زخموں پہ مرہم بےحس |
| اس قبیلے میں وفا پائی نہیں جاتی ہے |
معلومات