آہ جب تیرگی کی نکلے گی
روشنی روشنی کو ترسے گی
آدمی آدمی کو تڑ پے گا
کوئی صورت نظر نہ آۓ گی
کیا کرو گے جو دل یہ ٹوٹے گا
جان جاۓ گی جاں نہ نکلے گی
اپنے بارے میں بھی تو سوچو کچھ
بے حسی اب یہ مار ڈالے گی
دل میں آیا خیا ل دلبر کا
آگ اب جسم و جاں میں پھیلے گی
محفلوں میں ذرا سنبھلنا تم
عاجزی ، عاجزی کو پرکھے گی
کیسی رت ہے ہوا نے چھیڑ دیا
سانس لینے پہ سانس اکھڑے گی

0
86