| لوگوں نے بہت سمجھایا تھا |
| کیوں اتنا بھلا تم پیتے ہو |
| بن جاؤگے اک دن تم بھی دھواں |
| جل جل کے جو ایسے جیتے ہو |
| تھی بات تو انکی سب سچی |
| نادان تھے یارو ہم لیکن |
| اس دنیا کی بے زاری سے |
| پہچان تو تھی کم کم لیکن |
| دو چار قدم جب آگے بڑھے |
| اس جیون کی پگڈنڈی پر |
| تھا سامنے ساہوکار کھڑا |
| محصول کی اک پوتھی لے کر |
| بولا کہ اگر جو جینا ہے |
| اس دنیا میں خوش حالی سے |
| پھر لینے پڑیں گے تم کو اب |
| کانٹے بھی شجر کی ڈالی سے |
| کانٹے نہ تھے وہ سب دریا تھے |
| جو ہم کو نگلنے آئے تھے |
| ناگوں سے بھرے اس دریا نے |
| ہر اور سے پھن پھیلائے تھے |
| کہیں غربت کی تھی سیہ کاری |
| کہیں دولت کی تھی مکاری |
| اِک اور ہوس کا تھا ڈیرا |
| اور الفت کی بھی تھی بیماری |
| سب رشتوں میں تھے زہر بھرے |
| یاری کے بھی نہ تھے شاخ ہرے |
| اس تنہائی، لاچاری میں |
| ڈسنے کو تھے سب تیار کھڑے |
| کئی بار اسے ہم نے چھوڑا |
| شعلوں سے اسکے منہ موڑا |
| لیکن سب کالے ناگوں نے |
| ڈس ڈس کے ہمارا قسم توڑا |
| جینے کے لیے پینا ہی پڑا |
| ہم ہی تنہا تو پیاسے نہ تھے |
| تشنہ تھی یہاں ساری دنیا |
| پیتے نہ اگر ہم اسکو تو |
| کوئی اور ہمیں ہی پی جاتا |
معلومات