چشمِ بےزار میں کیا کیا نہیں منظر آیا |
کبھی صحرا کبھی طوفاں کبھی ساغر آیا |
پہلے پہلے تو کیا غرق مجھی میں مجھکو |
بن کے سیلاب پھر آنکھوں سے وہ باہر آیا |
دل کھلونا ہے وہاں ٹوٹ ہی جا نا ہے اسے |
میرے دل تو بھی کہاں دل کو لگا کر آیا |
ڈوبنے سے جسے لگتا ہی نہیں ڈر تھا کبھی |
خوف میں ہے وہی دریا جو سمندر آیا |
نہ سمجھنا کہ کوئی در نہ کھلا میرے لۓ |
چھوڑ کر دنیا میں ساری ترے در پر آیا |
وحشتوں سے مری کیوں اب ہے پریشاں دنیا |
ہم نے دیکھا جو بھی باہر وہی اندر آیا |
خالی ہاتھ آۓ سبھی اور وہ خالی ہی چلے |
نہ لیا کچھ بھی کسی سے نہ ہی دے کر آیا |
کوئی فرعون یہاں ہے تو کوئی ہوگا ولی |
پر کوئی بھی نہ ترے ذرہ برابر آیا |
زور مارا تو بڑا میرے سخن نے بے حس |
پر غزل میں مری کوئی بھی نہ تیور آیا |
بےحس کلیم |
معلومات