مجھے اب کوئی بھی ڈر نہیں ہوتا
مرا جو اب کہیں گھر نہیں ہوتا
روانی کتنی ہی کیوں نہ ہو ، لیکن
کبھی دریا سمندر نہیں ہوتا
نہ جانے کون ہے ، سسکیاں لیتا
جو اندر ہے ، کیوں باہر نہیں ہوتا
کیا ہے پار ایسوں کوبھی ہم نے
سفر ، جو راستوں پر نہیں ہوتا
لے کر جب نام انکا نکلتے ہیں
تو پھر راہوں میں پتھر نہیں ہوتا

0
86