| اس قدر رات بھر غم کی دہلیز پر |
| سر پٹکتی رہی میری تنہائیاں |
| دل یہ معصوم ، ہاتھیں ہی ملتا رہا |
| چوٹ کھاتی رہی میری تنہائیاں |
| ہجر کا جشن ہم یوں مناتے رہے |
| آنسؤں کی لڑی کو سجاتے رہے |
| آنکھ کی رات میں جگنُؤں کی طرح |
| جھلملاتی رہی میری تنہائیاں |
| وصل کی بات پر انکے سوغات پر |
| کروٹیں ہم بدلتے رہے رات بھر |
| بیٹھی پہلو میں میرے مجھے دیکھ کر |
| مسکراتی رہی میری تنہائیاں |
| آخری وقت بھی اسکو آواز دی |
| عمر بھر جن کو ہم سے تھی ناراضگی |
| آخری وقت بھی وہ نہ آۓتو پھر |
| چھٹپَٹَاتی رہی میری تنہائیاں |
| ہوگا ملنا ہمارا وہاں عرش پر |
| دیکھ دل اے مرے تو ذرا غم نہ کر |
| کہتے کہتے یہ آغوش میں موت کی |
| کسمساتی رہی میری تنہائیاں |
معلومات