میری آواز بھی میرے بس میں نہیں |
اور قلم بھی مری دسترس میں نہیں |
قید کی تھی تمنا کئی برسوں سے |
چین کیوں، اب مجھے اس قفس میں نہیں |
آرزو ، آرزو ہی ہو کر رہ گئی |
دوڑتا ، اب لہو بھی تو نس میں نہیں |
کر گئی کام وہ اک نظر، پل میں ہی |
جو ہوا، دن ، مہینے ، برس میں نہیں |
جو سکوں چین، صبرو شکیبی میں ہے |
لطف ایسا ، کبھی بھی ہوس میں نہیں |
خوشبو پھولوں کی ہے پھول میں ہی بھلی |
لمس بےحس وہ پھولوں کے رس میں نہیں |
بےحس کلیم |
معلومات