میری آواز بھی میرے بس میں نہیں
اور قلم بھی مری دسترس میں نہیں
قید کی تھی تمنا کئی برسوں سے
چین کیوں، اب مجھے اس قفس میں نہیں
آرزو ، آرزو ہی ہو کر رہ گئی
دوڑتا ، اب لہو بھی تو نس میں نہیں
کر گئی کام وہ اک نظر، پل میں ہی
جو ہوا، دن ، مہینے ، برس میں نہیں
جو سکوں چین، صبرو شکیبی میں ہے
لطف ایسا ، کبھی بھی ہوس میں نہیں
خوشبو پھولوں کی ہے پھول میں ہی بھلی
لمس بےحس وہ پھولوں کے رس میں نہیں
بےحس کلیم

0
72