انساں کے دشمنوں کا پیمان کچھ نہیں
جھوٹے فریبیوں کا ایمان کچھ نہیں
حافظ خدا اے لوگوں منصف ہوئے ہیں چور
ظلمت کے اس نگر میں میزان کچھ نہیں
بے شک مٹا دو میری ہستی کو آج تم
میری نظر میں تیری پہچان کچھ نہیں
دیکھے ہیں اس جہاں میں نمرود اور جہل
شانِ خدا کے آگے انسان کچھ نہیں
مٹی کا جسم ہے اور ماٹی ہی زندگی
خاکِ وطن کی خاطر یہ جان کچھ نہیں
چرچا ہے بس خوشی کا غم تو نڈھال ہے
مشکل اگر نہ ہو تو آسان کچھ نہیں
بے حس اداس ہو کر امید کو نہ چھوڑ
وسعت ہو ذہن میں تو زندان کچھ نہیں
بےحس کلیم

0
54