| مرے ہی دل کے مکاں سے نکلا |
| یہ دھواں سا جو یہاں سے نکلا |
| پھر ابھر کے مری جاں سے نکلا |
| یہ دھواں سا جو دھواں سے نکلا |
| رنگ لائی ہے بلاۓ عشق یہ جب |
| دل جلوں کے دل و جاں سے نکلا |
| بن گئی ہے وہی میری تقدیر |
| جو ستم گر کی زباں سے نکلا |
| آمدِ نم سے ہیں آنکھیں حیران |
| کہاں کا درد کہاں سے نکلا |
| پھر ضرورت نہ ہوئی لشکروں کی |
| تیر یوں اسکی بیاں سے نکلا |
معلومات