قتل کا ہی نہ لے کام ان آنکھوں سے
لا پلا ساقیا جام ان آنکھوں سے
تجھکو رندوں کی تشنہ لبی کی قسم
ٹوٹتے صبر کو تھام ان آنکھوں سے
ہم ہیں میکش ترے بادہ و جام کے
کردے رنگیں حسیں شام ان آنکھوں سے
بہکے ارماں کو مل جاۓ پوری سزا
یوں لگا اِس پہ الزام ان آنکھوں سے
دیکھنے کی ادا کر رہی ہے بیاں
دیکھنا کیا اب انجام ان آنکھوں سے
خامشی چیخ کر شور کرنے لگے
لکھ دے خط یوں مرے نام ان آنکھوں سے
لفظ تو تیر ہیں زخم ہی دیں گے بس
موت ہے پر یہ دشنام ان آنکھوں سے
ہو کے سیراب ہم تشنہ لب ہی رہے
ہے قیامت سا پیغام ان آنکھوں سے
نام اسکا ہی بےحس رہے گا یہاں
ہو گیا جو بھی بدنام ان آنکھوں سے
بےحس کلیم

0
77