زندگی میں ہم مشکلوں سے گھبرائیں کیوں
دل ہے تو دھڑکےگا، دھرکنوں سے گھبرائیں کیوں
آنا ہے، تو آۓ، بن کے قَیامَتِ جاں
جانی پہچانی رُتوں سے گھبرائیں کیوں
ہےمقصود ، اگر منزل، تو اے جانِ جاں
راستوں کے ان مرحلوں سے گھبرائیں کیوں
فیصلہ ہم کریں اپنے اور اپنی نسلوں کا
امن کی بات ہے ، سرحدوں سے گھبرائیں کیوں
جب چل ہی پڑے ہیں، راہِ جنوں میں، تو پھر
اس دنیا کے قہقہوں سے گھبرائیں کیوں
کوئی مقا بل گر ہو ، تو ہے مزہ بےحس!
ایسے ویسے دشمنوں سے گھبرائیں کیوں
بےحس کلیم

98