ایسا نہیں کہ پیاس کا صحرا بدل گیا
ساقی تری نگاہ کا لہجہ بدل گیا
پہلے تو پیاس نے ہمیں بے حال کر دیا
پھر پانی اور پیاس کا رشتہ بدل گیا
شدت تھی تشنگی تھی سمندر بھی پاس تھا
میرے نصیب کا ہی ستارہ بدل گیا
چلتا تھا دو قدم بھی نہ وہ جو مرے بغیر
دینا کو چھوڑ کر مری دنیا بدل گیا
منزل کو جب چلے تھے تو منظر بھی سنگ تھے
منزل ملی مگر وہ نظارہ بدل گیا
خوابوں کی کرچیوں میں جو لمحہ حسین تھا
تکمیل پاکے اب وہی کتنا بدل گیا
سنتا ہے کون اب یہاں فریادِ بے اثر
نالے کے بلبلوں کا قرینہ بدل گیا
مکرو فریب اور سیاست کے پھیر میں
تہذیبِ گلستاں مرا کتنا بدل گیا
شاںٔستگی کے پردوں سے، بےحس تو کام لے
بے باکیوں کا اب وہ زمانہ بدل گیا

0
62