اب ان سے دل کا معاملہ یوں بیاں کریں گے
سکوتِ لمحہ سخن نظر کو زباں کریں گے
اک آن میں ڈھیر ہوگا لشکر یہ خواہشوں کا
کہ جب وہ مزگاں کو تیر ابرو کماں کریں گے
ہمیں سمجھنا نہ بادلوں تم رقیب اپنا
جو درد دل کو ہم اپنے رو رو بیاں کریں گے
جو میرا نام آتے ہی لب انکے ہیں کانپ جاتے
یہی اشارے تو راز دل کے عیاں کریں گے
نہ گن کے لو سانس تم کہ اوپر وہ گن رہا ہے
خدا زمیں کو بھی ایک دن آسماں گریں گے
ابھی یہ بچہ سخن مرا نا سمجھ ہے تھوڑا
رہا جو زندہ اگر تو اسکو جواں کریں گے
غزل ہی بےحس ہے دردمند اپنا اس جہاں میں
یہاں نہیں دل کی باتیں تو پھر کہاں کریں گے
بےحس کلیم

2
74
یہاں نہیں دل کی باتیں تو پھر کہاں کریں گے

لاجواب محترم ۔۔۔

بہت بہت شکریہ محترم ❤️

0