Circle Image

#مرزاخان ارشدؔ

@Mehmood

اٹک

ہر وار میں خطرہ ہے ہر ڈھال سے خطرہ ہے
امت کے تشخص کو ہر حال سے خطرہ ہے
بیمار کو ہر وید کی سر تال سے خطرہ ہے
مظلوم کو منصف کے مورال سے خطرہ ہے
آئے ہیں وہ دوبارہ لیے ، جال سے، خطرہ ہے
سچ پوچھو تو چوروں کی ہر چال سے خطرہ ہے

0
15
کہدو اسے نوشتۂ دیوار چاٹ لے
سایہ شجر نہ دے تو اسے جڑ سے کاٹ لے
اک خون خوار تو نہیں لاکھوں یہاں وہاں
اے عاشقی کنارہ ہو توشہء ٹھاٹ لے
تھا بس میں جو اٹھانا وہ احساں اٹھا چکے
بھولے ہوئے جو غم ہیں ابھی انکی واٹ لے

0
34
پی کے چلے ہیں جامِ شہادت ظہیر جی
مقبول ہو گئی ہے ریاضت ظہیر جی
بھولے کہاں تمہاری رفاقت ظہیر جی
داغء مفارقت ہے قیامت ظہیر جی
کب تجھ کو روک سکتی تھیں دنیا کی طاقتیں
تیری امیدوار تھی جنت ظہیر جی

0
22
کیا لطف آئے جب ترا مستانہ ،پڑھتا جائے
حمد و ثناء جا جا ترا دیوانہ پڑھتا جائے
حاصل سکون دل ملے روزانہ پڑھتا جائے
یہ سمجھوں انکے عشق کا نذرانہ پڑھتا جائے
پرواز میرے عشق کی کلمہ ہو آپ کا
سیڑھی پہ چڑھتے چڑھتے یہ دیوانہ پڑھتا جائے

0
16
ہے دشمن سے زائد سپاہی سے خطرہ
مرض سے بھی زائد جراہی سے خطرہ
یہاں خطرے ہر سو بکھیرے ہیں ارشد
جرائم سے زائد کچہری سے خطرہ

0
24
جب سوچ نئی باب وہی حال نیا ہے
کس کس کو کہیں طور بدل سال نیا ہے
بگڑی ہے ابھی بات بہت فکر انس کی
کیسے اسے لوٹائیں گے ہر جال نیا ہے
گستاخ ہیں زاہد بھی ہیں رند بھی حیراں
سنتے ہیں کہ میخانے میں اب مال نیا ہے

0
18
بن تیرے کیا سماں ہے بابا بتا کہاں ہے
دشمن ہوا زماں ہے بابا بتا کہاں ہے
تیری کمی نے مجھ کو ناچار کر دیا ہے
یہ قرب مرگِ جاں ہے بابا بتا کہاں ہے
بیتاب ہو گیا ہوں دشواریء جہاں سےe
یہ جاں تو ناتواں ہے بابا بتا کہاں ہے

0
31
آئی یہ کربِ جاں ہے اے ماں بتا کہاں ہے
تجھ بن خزاں خزاں ہے اے ماں بتا کہاں ہے
کب آنکھ چین پائے دیکھوں سکون آئے
گم سر سے جیسے چھاں ہے اے ماں بتا کہاں ہے
جب تک ہے دل بغل میں ماں بھولنا ہے مشکل
ہر وقت کی فغاں ہے اے ماں بتا کہاں ہے

24
بزمِ ساقی رہے دور چلتا رہے
ہم کو جامِ تمنا سنبھلتا رہے
رونقِ میکدہ یوں سلامت رہے
جامِ ہستی سے لرزہ نکلتا رہے
کیسے آئے گی میری ادا کسر میں
ہیں مرے شعر میں وہ مری نثر میں

0
47
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
کیا سوچ نئی باب نیا حال نیا ہے
کس کس کو کہیں طور بدل سال نیا ہے
بگڑی ہے ابھی بات بہت فکر انس کی
کیسے اسے لوٹائیں گے ہر جال نیا ہے
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی

0
23
عبس دنیا کا رنگ و بو خدارا
ترا ہے ذکر اللہ ہو خدارا
اٹھو چل کر ذرا دیکھو خدارا
ہوئی امت لہو ہر سو خدارا
مسلماں کے ہو بیٹے مسلماں تو
رکھو سجدوں سے تر خود کو خدارا

0
40
عبس دنیا کا رنگ و بو خدارا
ترا ہے ذکر اللہ ہو خدارا
اٹھو چل کر ذرا دیکھو خدارا
ہوئی امت لہو ہر سو خدارا
ابھی شمشیر کے کرتب دکھانے
نکل مقتل کی جانب تو خدارا

0
35
روز محشر کے سہارے رحمتہ للعالمیں
ہم بھی آئے ہیں دوارے رحمتہ للعالمیں
ساقی کوثر ہیں پیارے رحمتہ للعالمیں
آپ ہیں ساقی ہمارے رحمتہ للعالمیں
کیا شباہت پیاری باتیں اور سیرت ہے جدا
بن کے آئے رب سے پیارے رحمتہ للعالمیں

0
29
آ بھی جا تیرا بیمار اچھا نہیں
جانے کو جیسے تیار اچھا نہیں
دار کی خشک ٹہنی پہ دل ہے مرا
پوچھتے حال بھی یار اچھا نہیں
تو محبت ہی کیا اک مرا مان ہے
سر بناں کوئی دستار اچھا نہیں

0
24
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
کس کی ایما پہ در در منادی ہوئی
چپ رہو ظلم سہ کر منادی ہوئی
جو بھی آیا نظر اس کی لیں گے خبر
سب رہیں اپنے گھر پر منادی ہوئی
کوئی شکوہ زباں پر نہ لائے کوئی

0
28
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
اک با وفا کا پیار جو ٹھہرا ہے آنکھ میں
ڈوبا خمارِ عشق میں، سہرا ہے آنکھ میں
اس زندگی کی چاہ کو کیسے نکال دوں
مجبور ہوں کہ یار کا چہرہ ہے آنکھ میں
آنکھوں میں اک بلا کی چمک آ گئی جہاں

0
43
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
کہیں فصل گل ہے کہیں بدظنی ہے
کٹے جا رہا ہوں عجب زندگی ہے
سمجھ سے ہے بالا عوامی کدورت
محبت میں ضد کی جو بو آ رہی ہے
یہاں سانپ بھی آستینوں میں پلتے

0
39
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
تری محبت کے رقص میں گم ابھی تلک دل بھرا نہیں ہے
میں دلکی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کوئی بھی تجھ سا ملا نہیں ہے
تو حسنِ قائم تو حسنِ دائم جہاں کا روشن چراغ تو ہے
جو تجھ کو رب نے جمال بخشا کسی کو اس نے دیا نہیں ہے
جہاں میں جتنی بھی نعمتیں ہیں یہ رب کی تجھ پر عنایتیں ہیں

27
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
سرکشی من میں سمائی حوصلہ جاتا رہا
عشق کو سمجھا نہ جب تک بے نوا جاتا رہا
عاشقوں کی نرم فطرت کچھ سوا اس کے نہیں
اس لئے میں عشق کا پانے صلہ جاتا رہا
بس خمارِ شوق ساقی تیرے میخانے کا تھا

0
26
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
ہوا ہے جب سے رواج ظالم مزاج برہم
دیا ہے کس نے یہ آج سالم سماج برہم
وفا پرستی کو بھول بیٹھے زوال پایا
ستمگری کا یہ راج عالم خراج برہم
کمال عکسء جمال پایا خصال پایا

35
وہ جو خلوت کے قریں ہو جائیں گے
ہم نکھر کر پھر حسیں ہو جائیں گے
یہ مناظر دل نشیں ہو جائیں گے
قابلِ صد آفریں ہو جائیں گے
قدر بڑھتی ہے تو کیا مطلب وہاں
جب کہ ہم زیرِ زمیں ہو جائیں گے

0
37
لبوں کے سروں پہ سجاتے رہیں گے
کہ اُردو میں سب کو بلاتے رہیں گے
معطر بھی جھونکے اڑاتے رہیں گے
ادب کے یہ کوچے بساتے رہیں گے
یہ اقبال و غالبؔ کے راہی ہمیشہ
ترانوں میں اُردو سناتے رہیں گے

0
38
کہاں پر کھڑے تھے کہاں اب کھڑے ہیں
یہ کس کی خطا ہے کہ بکھرے پڑے ہیں
کوئی ابنِ قاسم ہی آ کر اُکھاڑے
وطن میں سیاست کے پنجے گڑے ہیں
سیاسی سمندر میں ڈوبی ہے کشتی
غریبوں کے بچے بھنور میں اڑے ہیں

0
43
سارا چکر ہے دانہ پانی کا
نام لیتے ہیں حکمرانی کا
کس نے سوچا غریب کے بارے
حال ابتر ہے زندگانی کا
اب کلیجہ بھی منہ کو آتا ہے
دیکھ آنکھوں میں حال پانی کا

0
40
جواب آنسو ، سوال آنسو
درونِ مژگاں سنبھال آنسو
غمِ گزر کا وِصال آنسو
مثالِ ابرِ ، خصال آنسو
جو تر گریباں میں جذب ہو کر
نہاں رہیں بے مِثال آنسو

0
41
ہم ستم زندگی بھر اٹھاتے رہے
مسکراہٹ ولیکن لٹاتے رہے
گر وہ اپنے ہنر آزماتے رہے
ہم بھی اپنا جگر آزماتے رہے
جذب کرتے رہے اپنی بیتابیاں
جبکہ سوز نہاں تک چھپاتے رہے

0
32
دنیا سے بہت دور حجابوں میں رہیں گے
جبتک کہ ترے دل کی کتابوں میں رہیں گے
ہم کو کبھی دنیا کے مناظر میں نہ لاؤ
نایاب ہیں نایاب گلابُوں میں رہیں گے
تیرے ہیں سدا تیرا ہی چاہیں گے سہارا
خوش بخت ہیں جو تیرے نصابوں میں رہیں گے

0
34
اک صاحبِ کمال تھا ہم سے چلا گیا
الفت میں بے مثال تھا ہم سے چلا گیا
ہر بزم کا وہ حسن تھا ہر دل عزیز تھا
ارشد وہ اک ہلال تھا ہم سے چلا گیا
اوصاف میں بجا ہے کہ حق کا ظہور تھا
وہ شیخ با کمال تھا ہم سے چلا گیا

0
2
184
صدا کہہ رہی ہر ادا کہہ رہی ہے
جفاؤں میں ڈوبی وفا کہہ رہی ہے
نیا سال سب کو مبارک خدایا
فقط اک مسلسل صدا کہہ رہی ہے
زباں سے ٹپکتے ہیں لفظوں کے آنسو
نگاہوں سے پڑھتی نگہ کہہ رہی ہے

0
38
دیکھا جہان خوب جہاں تک نظر گئی
کہ حسین کائنات میں ہستی گزر گئی
تھا منزل ابد کے چراغوں کی کھوج میں
جوں ہی بجھے چراغ تو جیسے نظر گئی
رستہ بدل کے چلنے کا سوچا نہ تھا کبھی
لیکن جو بر خلاف تھی میرے خبر گئی

0
47
دیکھا جہان خوب جہاں تک نظر گئی
اس جسمِ کائنات میں ہستی گزر گئی
تھا منزل ابد کے چراغوں کی کھوج میں
جوں ہی بجھے چراغ تو جیسے نظر گئی
رستہ بدل کے چلنے کا سوچا نہ تھا کبھی
لیکن جو بر خلاف تھی میرے خبر گئی

0
59
بڑھاؤں کیسے محبت کسی نواب سے میں
ہوا فدا جو گہر پر تو بے حساب ہوں میں
کھلی کتاب ہوں لیکن پڑھے نہ کوئی مجھے
کہ عام لوگوں میں لگتا بہت خراب ہوں میں
وہ داد بخشی ہے جس نے مرے حواصل کو
انہی کا شکر کہ ان سے ہی فیض یاب ہوں میں

0
78
ہوا فدا جو گہر پر تو بے حساب ہوں میں
بڑھاؤں کیسے محبت کسی نواب سے میں
کھلی کتاب ہوں لیکن پڑھے نہ کوئی مجھے
کہ عام لوگوں میں لگتا بہت خراب ہوں میں
وہ داد بخشی ہے جس نے مرے حواصل کو
انہی کا شکر کہ ان سے ہی فیض یاب ہوں میں

0
344
لاکھ چاہوں مگر نہیں جاتا
دل سے ان کا اثر نہیں جاتا
عشق جلوت نما ، عبادت ہے
ورنہ خلوت سے ڈر نہیں جاتا
موت سر سے گزر بھی جائے تو
عشق سر سے اتر نہیں جاتا

0
77
جب تخیل رفیقِ سفر کر لیا
نعت کا قصد تب عمر بھر کر لیا
زندگی کی رتوں میں بہار آ گئی
ہر گھڑی میں خوشی صد ہزار آگئی
نعت کی سر زمین بے کنار آگئی
نطق و دل کو جو پیشِ نظر کر لیا

0
118
سلگ رہا ہوں کہ جس حسنِ ماہْتاب سے میں
کبھی سکون نہ پایا ہے آنجَناب سے میں
کبھی کباب سے بہکا نہ تو شَراب سے میں
بہک گیا ہوں فقط حسنِ حِجاب سے میں
مرے لہو سے رقم ہیں تمام تاریخیں
ڈرا ہوا ہوں زمانے تری کِتاب سے میں

0
79
ان سا نہ کوئی صاحبِ اشفاق وغیرہ
امت جسے ملنے کی ہے مشتاق وغیرہ
عصیاں کے جو ملجاتے ہیں تریاق وغیرہ
ہستی کے بدل جاتے ہیں اوراق وغیرہ
ملتا نہیں ان کے جو کسی طرز کا ثانی
سیرت ہو کہ صورت ہو یا اخلاق وغیرہ

1
106
کتنا جمیل ہے مرے شاہِ زماں کا رخ
تکتے ہیں مہر و ماہ اسی مہرواں کا رخ
اب کون روک پائے گا شوقِ خیال کو
ہم نے بھی کر لیا ہے اسی سائباں کا رخ
پھولوں سے جھوم جھوم کے آتی ہیں تتلیاں
جب کر لیا ہے ہم نے ترے آستاں کا رخ

0
57
کتنا جمیل ہے مرے شاہِ زماں کا رخ
تکتے ہیں مہر و ماہ اسی مہرواں کا رخ
اب کون روک پائے گا شوقِ خیال کو
ہم نے بھی کر لیا ہے اسی سائباں کا رخ
پھولوں سے جھوم جھوم کے آتی ہیں تتلیاں
جب کر لیا ہے ہم نے ترے آستاں کا رخ

0
60
کتنا جمیل ہے مرے شاہِ زماں کا رخ
تکتے ہیں مہر و ماہ اسی مہرواں کا رخ
اب کون روک پائے گا شوقِ خیال کو
ہم نے بھی کر لیا ہے اسی سائباں کا رخ
پھولوں سے جھوم جھوم کے آتی ہیں تتلیاں
جب کر لیا ہے ہم نے ترے آستاں کا رخ

0
65
رہتے ہیں اسی سوچ میں ارمان وغیرہ
بس انکے غلاموں میں ہو پہچان وغیرہ
عشاق جو راہوں میں پڑے ان کے فروزاں
کب ان کو بجھا پائے ہیں طوفان وغیرہ
جالی سے لپٹ کر دلِ امید بجھا لوں
سینے میں مچلتے ہیں یہ ارمان وغیرہ

0
86
بٹتی ہے اسی در پہ وہ خیرات وغیرہ
رحمت کی برستی ہے جو برسات وغیرہ
اس در سے بھکاری کبھی جاتا نہیں خالی
دیکھی ہے بجا ان کی مساوات وغیرہ
قرآں میں محمد کی ہے توصیف نمایاں
ثانی ہے نہ عالم میں کوئی ذات وغیرہ

0
46
مرے ہی عشق کا تارا چراغِ رہگزر ٹھہرا
سفر شہرِ مدینہ کا مرا طلبء امر ٹھہرا
مری حسرت ہے دیرینہ تبھی اصرار رہتا ہے
سدا رہنا محمد کے نگر میں ہی اگر ٹھہرا
جو خالق نے نوازی ہے مجھے انکی ثنا خوانی
وہ میرے مجتبیٰ ٹھہرے میں ان کا نعت گر ٹھہرا

0
161
اُٹھی ہے جب ترے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
کِھلا دیکھا ہے اک تازہ گُلاب آہستہ آہستہ
قیامت ہی نہ ہو جائے تری اس بے حجابی پر
نیا جو اُٹھ رہا تیرا شباب آہستہ آہستہ
بڑی پُر جوش چاہت سے لگے ہو چاہنے جاناں
اتر جائے نہ یہ تجھ سے ثواب آہستہ آہستہ

0
71
میں ہوں اک خاک کا ذرہ مری ہستی فقیرانہ
مثل تو چاند تاروں میں تری ہستی ہے شاہانہ
یہ دل ہے انکے پہلو میں تو جاں انکے ہی قدموں میں
متاعِ زندگی تب ہے ملے کوچہء جانانہ
میں ٹھکرایا ہوں در در کا لیے نالے چلا آیا
مری وقعت بھی کیا ہو گی میں خود سے ہوں جو بیگانہ

0
107
حکمِ یزداں سے ملا مدح پیمبر سے ملا
یہ محبت کا ہنر میرے مقدر سے ملا
شکر ہے اس پہ کہ ارشدؔ کو اسی در سے ملا
جو ملا مجھ کو ہنر عرضِ وہ مادر سے ملا
ہر گھڑی عشقِ محمد سے اجاگر میری
عشق کا لطف محمد کے قلندر سے ملا

2
197
نبی کا لا کے دیں اطہر دلوں پر راج کرتے ہیں
وہ شمشیر و سناں لے کر دلوں پر راج کرتے ہیں
جھکا کر رب کے آگے سر دلوں پر راج کرتے ہیں
وہ تکبیر و ثنا لے کر دلوں پر راج کرتے ہیں
فرشتے تذکرہ کرتے ہیں جن کا آسمانوں میں
وہ دیوانے زمینوں پر دلوں پر راج کرتے ہیں

0
192
حکمِ خدا، قتال پہ ہم رشک کر گئے
فردوس کے وصال پہ ہم رشک کر گئے
قدرت نے جو نوازا ہے بدلے میں جان کے
اس شاہدِ کمال پہ ہم رشک کر گئے
اللہ نے جس کو بھیج کے وعدہ وفا لیا
اس سورۂ اَنْفال پہ ہم رشک کر گئے

0
129
جب تمنا عشقِ تاباں کی نہیں
عاشقی پھر مثلِ یاراں کی نہیں
حسرتِ دل ذوقِ قرباں کی نہیں
"دل ربائی زلفِ جاناں کی نہیں"
تیری خواہش گلِ افشاں کی نہیں
جب محبت ہی گلستاں کی نہیں

0
78
دوانہ کون کہتا ہے کہانی کون کہتا ہے
جو پلکوں سے رہے گرتا تو پانی کون کہتا ہے
بڑا یہ قیمتی کہنا زبانی کون کہتا ہے
کتابِ عشق میں دل بر و جانی کون کہتا ہے
وصالِ شب کو ویسے تو شبِ اعزاز کہتے ہیں
جدائی کی جو ہوں راتیں سہانی کون کہتا ہے

0
81
آمنہ کے دل ربا پر نعت لکھ
اُس نبی خیر الورٰی پر نعت لکھ
ختم مرسل مجتبیٰ پر نعت لکھ
شافیِ ء روزِ جزا پر نعت لکھ
چاہتا اس دل کی ہوں رعنائیاں
سن پیارے مصطفےٰ پر نعت لکھ

0
128
پہلے ہو جا پارسا پھر نعت لکھ
لفظوں کی مالا بنا پھر نعت لکھ
تھام خامہ اور خدا کا نام لے
ان کے غم میں ڈوب جا پھر نعت لکھ
دیکھ کیسے ملتی ہے آسودگی
چل نبی سے لو لگا پھر نعت لکھ

0
125
عرشیوں نے کہا مصطفےٰ آ گئے
فرشیوں کے لیے پیشوا آ گئے
شاد ہے زندگی مٹ گئے رنج و غم
جب سنا میرے خیر الوریٰ آ گئے
چاند کی چاندنی بوسہ زن ہو گئی
جو زمیں پر وہ صلِ علی آ گئے

0
74
ظالم کا نشانہ ہیں بنائے ہوئے ہم لوگ
حق چھوڑیں کہاں اپنا ستائے ہوئے ہم لوگ
ہیں پانی کہیں شعلہ سجائے ہوئے ہم لوگ
آتے ہیں نظر ظلم مٹائے ہوئے ہم لوگ
آتا نہیں ہم کو وہ کسی ڈر سے بہانہ
بیباک محبت میں بسائے ہوئے ہم لوگ

0
85
رمضان دیکھو عاشقو مہمان آ گیا
رحمت لیے یہ صاحبو رمضان آ گیا
رمضان کا جو سننے میں اعلان آ گیا
ایسے لگا ہے وجد میں ایمان آ گیا
لینے کو آیا سحری میں عہدِ وفا مرے
افطار میں ہے کرنے کو احسان آ گیا

0
116
کبھی خود کو رلاتا ہوں کبھی میں مسکراتا ہوں
نبی کی یاد آتی ہے سلاماً جھوم جاتا ہوں
کبھی آلام ہوتے ہیں کبھی انعام ہوتا ہے
تڑپ کر یاد کے اندر انہیں خوابوں میں پاتا ہوں
امیدیں رقص کرتی ہیں وفائیں ناز کرتی ہیں
ترے نقشِ قدم پر خود کو جب بھی آزماتا ہوں

0
107
فعلن فعْل فعولن فعلن فعْل فعولن
من کی باتیں من ہی جانے من، کا من اسرار
کوئی بات نہ مخفی رہتی من کی آنکھیں چار
سکھ کی کلیاں دکھ کے کانٹے من میں کئی اَسْمار
کھوج سکو نہ من کے پردے من ایسا سنسار
من چاہے تو عرش بلائے کرنے قول قرار

0
117
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
تمنا مری ہے مری جستجو ہے
کہ دل میں مرے جو فقط اللہ ہو ہے
نہیں ہے جہاں میں کوئی سمت خالی
جو دیکھا کہیں بھی ترا رنگ و بو ہے
میں کھا کر قسم یہ تری کہہ رہا ہوں

0
142
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مری مشکل سہولت کی نذر جاتی تو اچھا تھا
رواں ہستی ہماری بھی سنور جاتی تو اچھا تھا
جو تجھ سے مل کے آ جاتی سکونِ دل بھی آ جاتا
وہی چھو کر ہوا مجھ کو گزر جاتی تو اچھا تھا
مری بے چین نظروں سے ترا مجھ سے جدا ہونا

0
2
222
ہم جب عشق کے مارے ہوتے
چاند کے گرد ستارے ہوتے
تن من آپ پہ وارے ہوتے
تخت و تاج ہمارے ہوتے
ہوتا پیارے نبی سے رشتہ
کیوں ہم غم کے مارے ہوتے

1
180
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
دعا بے رنگ ہوتی ہے مگر لاتی ہے رنگینی
مقدر کو بناتی ہے مٹائے دل کی بے چینی
اگر لانی ہے شادابی ہنر اک خاص ہے اسکا
بدن کی زر عبادت ہے دعا ہے اس کی زرینی
گنو وہ حسرتیں جو ڈوب جاتی ہیں بنا مانگے

171
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
جب سے درود پاک کا تحفہ ملا مجھے
سچ ہے کہ رحمتوں کا خزینہ ملا مجھے
ملتی رہیں ہیں شوق کو بیداریاں مری
جب سے عروجِ عشق کا مژدہ ملا مجھے
بتلاؤں کیا خمار ہے ان کے درود میں

95
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
منظرِ بزم دکھانے ہمیں لایا نہ گیا
تذکرہ میرا سرِ بزم سنایا نہ گیا
میری روداد سناتے تو قیامت ہوتی
خامۂ اشک روانی کو دکھایا نہ گیا
وہ محبت میں مری سود و زیاں لے آئے

0
95
چمک جگنو کی برقِ راہرو اقدام ہوتی ہے
قفس میں جیسے قدرِ آشیاں آرام ہوتی ہے
عجب انداز میں یہ زندگی ہر گام ہوتی ہے
بھلی معلوم ہوتی ہے کہیں آلام ہوتی ہے
نہیں ملتا کوئی تکیہ جگت ناکام ہوتی ہے
بجا ہے وہ غریبوں کی بھی دوبھر شام ہوتی ہے

0
110
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
بے آبرو کرے جو ایسی دل لگی سے باز آ
نہ جو کسی کے کام آئے ، زندگی سے باز آ
دیارِ دل کی راہ پر جو چل رہا ہے تو سمجھ
عیوب ترک کر سبھی بے چارگی سے باز آ
یہ صبح کی سفیدیاں وہ شام کی سیاہیاں

0
173
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
محبتوں کی وادیوں میں اپنا گلستاں الگ
گلوں کی ہے مہک الگ ہماری داستاں الگ
کبھی تو ہو ہی جائیگا ہمارا آسماں الگ
بنے گی اک مثال جو کریں گے ہم بیاں الگ
عدالتِ سخن کے جو سنو تو، ہم وکیل ہیں

0
81
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
محبت کی خوشبو بسائی گئی ہے
حویلی تمہاری سجائی گئی ہے
مبارک مبارک ہو شادی مبارک
جو اسلوب سنت منائی گئی ہے
کہیں پر کھلایا گیا ہے ولیمہ

0
122
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
محبتوں کی وادیوں میں اپنا گلستاں الگ
گلوں کی ہے مہک الگ ہماری داستاں الگ
کبھی تو ہو ہی جائیگا ہمارا آسماں الگ
بنے گی اک مثال جو کریں گے ہم بیاں الگ
عدالتِ سخن کے جو سنو تو، ہم وکیل ہیں

0
63
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
بے آبرو کرے جو ایسی دل لگی سے باز آ
نہ جو کسی کے کام آئے ، زندگی سے باز آ
دیارِ دل کی راہ پر جو چل رہا ہے تو سمجھ
عیوب ترک کر سبھی بے چارگی سے باز آ
یہ صبح کی سفیدیاں وہ شام کی سیاہیاں

0
132
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
مدینے کو جاتے تو کیا بات ہوتی
نگاہوں کو حاصل کرامات ہوتی
ہمیں گر مدینے میں لے جاتی قسمت
وہاں دن گزرتے وہاں رات ہوتی
مٹاتے وہاں روح کی تشنگی کو

117
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
آپ آئے خوشی زندگی کو ملی
سچ کہوں تازگی ہر کلی کو ملی
تابشِ مصطفیٰ بندگی کو ملی
آپ کا جب مدینے میں درشن ہوا
ہر طرف نور ہی نور روشن ہوا

102
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
تشہیر ضروری ہے نہ تقریر ضروری
اِس دَور میں جینے کو ہے شمشِیر ضروری
گستاخِ نبی پھر سے سیہ کار ہوا ہے
ایسوں کو لگانی دینی ہے تحذیر ضروری
غفلت کی ردا اوڑھی ہے جو سر سے اتارو

86
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
وفا رائج کہانی ہو گئی ہے
محبت تو زبانی ہو گئی ہے
حیا جب آنی جانی ہو گئی ہے
شرافت پانی پانی ہو گئی ہے
مقید کر لیا سب کو ہوس نے

0
123
کتابوں میں جو افضل ہے اسے قرآن کہتے ہیں
کیا نازل قراں جس نے اسے رحمان کہتے ہیں
جو اہلِ ظرف ہوتے ہیں انہیں تلقین ہوتی ہے
امر جو شاہِ بطحا ہے اسے فرمان کہتے ہیں
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
166
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
محبت کہاں ہے کہاں ڈھونڈتے ہیں
خزاں میں گُلوں کا سماں ڈھونڈتے ہیں
سمجھ کر نہ سمجھے ابھی تک یہ ناداں
کہ شورش میں امن و اماں ڈھونڈتے ہیں
جو ننگِ وطن ہیں وہ کیا تم کو دینگے

0
120
محبت کے لُٹا موتی زباں کے شر سے باہر آ
مٹا کر نفرتیں دل سے نمودِ گھر سے باہر آ
یہ کینہ پروری تیری تجھے ہی مار ڈالے گی
اگر پہچان بننا ہے تو اس چکر سے باہر آ
تصور کی ذرا تصویر خود ہی کھینچ لے اپنی
احاطہ پہلے اپنا کر کے ان کے در سے باہر آ

101
دل جلایا مگر ___ رائگاں جل گیا
جل گیا سب غمِ بیکراں جل گیا
گھر مرا چن لیا روشنی کے لئے
روشنی تو ہوئی پر مکاں جل گیا
اس میں صیاد کا ہاتھ لگتا مجھے
میرا پھولوں بھرا گلستاں جل گیا

99
دوانہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے
غرورِ عشق توڑا ہے کسی نے
سراپا ناز تھے ہم بھی تو لیکن
محبت میں نچوڑا ہے کسی نے
زمیں کے ہیں نہ تو ہم آسماں کے
کہاں پر لا کے چھوڑا ہے کسی نے

150
چلے ہم نوا رہ گئے ہم اکیلے
دل اکتا گیا رہ گئے ہم اکیلے
جدائی کے لمحے یہ کیسے کٹینگے
گئے دل ربا رہ گئے ہم اکیلے
کجا وہ محبت کہاں اب ملے گی
گئے باوفا رہ گئے ہم اکیلے

153
تصور سے نہیں جاتے چھپاؤں میں فغاں کیسے
نمک چھڑکا ہے کس کس نے سناؤں رنجشاں کیسے
نہ وہ باتیں نہ وہ چاہت جدائی کی گھٹائیں ہیں
کہ ہم ہیں کس اذیت میں سنائیں داستاں کیسے
سنہرا خواب ہے دنیا کہیں خوشیاں کہیں پر غم
یہاں ہے دل لگی کیسی کریں ہم یہ بیاں کیسے

107
انکو غزل کی بحر سے ____ نقشِ جمال کر دیا
ایسا دیارِ عشق میں ____ تو نے کمال کر دیا
ہائے نگاہِ یار نے _______ دل کو نڈھال کر دیا
پھر بھی دلِ اداس نے _____ نذرِ وصال کر دیا
قبل ترے خیال سے _ عذر تھے کچھ گمان بھی
تیرے سوا خیالوں کو ___ دل نے کنگال کر دیا

0
152
اے میرے خدا ایسی مجھے تیغ عطا ہو
جس تیغ سے ہر لشکرِ کفار فنا ہو
بھولا ہوا وہ درسِ وفا پھر سے ادا ہو
دربار میں تیرے مری محبوب دعا ہو
جینے کے لیے کوئی ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
حسرت ہے مری سر یہ مرا ان پہ فدا ہو

84
محبت کی بہاروں میں،میں ایسا دل لگا بیٹھا
پرائے درد سب اپنے ہی دامن میں چھپا بیٹھا
مری آنکھوں کے اشکوں نے کیا سیراب پیمانہ
جو چھلکا جام الفت کا دل اپنا میں لٹا بیٹھا
غرورِ حسن کو تیری وفاؤں نے مٹا ڈالا
جو تیرے غم مٹانے کو اٹھا دستء دعا بیٹھا

76
کوئی بھی مہرباں مرا تیرے سوا نہیں
قدرِ قلیل بن ترے ملتی وفا نہیں
فریاد کیوں کروں میں رقیبوں سے برملا
تو ہے جو میرے ساتھ تو خدشہ ذرا نہیں
کیسے وہ جان پائے گا الفت کی منزلیں
اس سر بلندِ عشق میں جو مبتلا نہیں

122
یہ سب بیکار ہیں یارو لب و رخسار کی باتیں
یہ کیسا عشق ہے کرتے ہو جو گلنار کی باتیں
سرور و عشق کی باتیں اصل کردار کی باتیں
چلو آؤ کریں مل کر حقیقی پیار کی باتیں
وہاں دھوکہ محبت میں یہاں غلبہ محبت میں
اُدھر ہے حسن کی پوجا اِدھر غفار کی باتیں

281
تری ہنسی مری آہوں میں جل بھی سکتی ہے
ابھی یہ بخت کی صورت بدل بھی سکتی ہے
نشانہ کیوں مری غربت کو تم بناتے ہو
مری زوال سے ہستی نکل بھی سکتی ہے
سلگ رہی ہیں جو آنکھیں تمہاری یادوں میں
کہیں تلاطمِ مستی مچل بھی سکتی ہے

92
عرضِ مصنفیں ہے بشارت کو دیکھنا
اشعار کی اے دوست مہارت کو دیکھنا
کہتا ہوں عاجزی ء جسارت کو دیکھنا
فیضانِ با ادب کی حرارت کو دیکھنا
اب ٹھہرتی کہاں پہ ہے جا کر نظر مری
الفاظ کے بیاں کی طہارت کو دیکھنا

162
ڈوب جانے کا بھلا وہ کیا نظارہ تھا کوئی
عشق کے جو بحر میں ڈوبا کنارا تھا کوئی
شکر ہے وہ مل گئے جن کا مجھے وشواس تھا
ورنہ بہہ جاتے کہیں یاں پر ہمارا تھا کوئی
جب سے ہاتھ آئی محبت ہم نے اپنا کر لیا
پہلے کیا یہ کم نہیں دل پارہ پارہ تھا کوئی

154
حضرتِ جامیؔ کے رستے ہم یہاں چلنے لگے
کوچہ کوچہ کو بکو ان کی صدا سننے لگے
عشق کے آبِ وفا سے جب وضو کرنے لگے
حضرتِ بیتاب دل کی بھی فضا بننے لگے
دیکھ لی فیضِ ادب کی جب بہارِ نو چلی
خسرویِ پارسائی سے یہ دل مچنے لگے

0
180
بنا تیرے گزرے تو کیسا ہی دم ہے
مجھے زندگی میں یہی ایک غم ہے
یہ عامی نہ سمجھو ادائے حرم ہے
بجا یہ محبت بہت محترم ہے
محبت میں سب ہیں پرانے معلم
مرا تو محبت میں پہلا قدم ہے

0
146
با حیا زرولی ، با وفا زرولی
ہر ولی کا تو ہے دل ربا زرولی
تیرے غم میں ہوئے مبتلا زرولی
ہائے ہم سے ہوا ہے جدا زرولی
تجھ پہ قربان بادِ صبا زرولی
تیری اصحاب والی ادا زرولی

0
151
اردو غزل اور تصور عشقاردو غزل یا اردو شاعری عشق کے ارد گرد گھومتی ہے۔غزل کا بنیادی موضوع عشق رہا ہے۔عشق کو زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور عشق کی ناآسودگی کی وجہ سے غم وجود میں آتا ہے۔اور اسی کے ذریعے زندگی کی شناخت ممکن ہے۔شاہی درباروں میں مختلف محفلوں کا آراستہ ہونا ایک عام بات تھی کیوں کہ اس کے ذریعے خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔اردو شاعری میں بھی عشق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ابتدائی شاعری میں عشق مجازی پر زور زیادہ تھا لیکن جیسے جیسے اردو شاعری کا سفر آگے بڑھتا ہے عشق حقیقی کا تصور بھی نظر آنے لگتا ہے۔اردو شاعری کے شروعاتی دور میں عشق مجازی کو زیادہ پیش کیا گیا یہی وجہ ہے کہ خاتم، آبرو اور مضمون وغیرہ کے یہاں عشق کا تصور رنگ رنگینیوں اور نشاط تک محدود نظر آتے ہیں۔لیکن میر حسن مثنوی ‘خواب و خیال’ میں عشق کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ عشق محض خوشی یا مسرت نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہے۔میر تقی میر کے یہاں بھی عشق و عاشقی کا یہی تصور پیش کیا گیا ہے۔اس میں صرف لذت و انبساط نہیں بلکہ قربانی و ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے۔عشق کا تصور مختلف شعرا کے یہاں مختلف ملتا ہے۔میر حسن نے پوری مثنوی ‘خواب و

995
رشتہ نرالا دیکھا دیپک کا تیرگی سے
چاہے شگفتگی سے یا دل گرفتگی سے
آسودہ ہے نہ کوئی اس عہدِ زندگی سے
خوشیوں کی تشنگی سے غم کی کشادگی سے
اس جسمِ خاک میں ہے رہبر بھی راہزن بھی
ڈوبا کوئی بدی میں نیکی کی بندگی سے

0
110
عطا ہوئی ہیں رونقیں کرم ہوا کریم کا
کرم ہؤا کریم کا انعام اس عظیم کا
صدیم ہو مبارکیں کہ چاند آیا گھر ترے
نزول ہو گیا ہے جو معاویہ صدیمؔ کا
معاویہ کے نام سے جو آمدِ بہار ہے
چمک اٹھا یہ گلستاں ہے صاحبِ صدیمؔ کا

0
115
کیا ہی کرتا دلکی چاہت تھی مری
اپنا دل ہی جب عدالت تھی مری
لے گیا کوئی اڑا کر ہر خوشی
ایسی قسمت میں جو راحت تھی مری
راہ الفت میں وہ مجھسے کھو گئے
ورنہ ان سے کیا شکایت تھی مری

0
93