اردو غزل اور تصور عشقاردو غزل یا اردو شاعری عشق کے ارد گرد گھومتی ہے۔غزل کا بنیادی موضوع عشق رہا ہے۔عشق کو زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور عشق کی ناآسودگی کی وجہ سے غم وجود میں آتا ہے۔اور اسی کے ذریعے زندگی کی شناخت ممکن ہے۔شاہی درباروں میں مختلف محفلوں کا آراستہ ہونا ایک عام بات تھی کیوں کہ اس کے ذریعے خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔اردو شاعری میں بھی عشق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ابتدائی شاعری میں عشق مجازی پر زور زیادہ تھا لیکن جیسے جیسے اردو شاعری کا سفر آگے بڑھتا ہے عشق حقیقی کا تصور بھی نظر آنے لگتا ہے۔اردو شاعری کے شروعاتی دور میں عشق مجازی کو زیادہ پیش کیا گیا یہی وجہ ہے کہ خاتم، آبرو اور مضمون وغیرہ کے یہاں عشق کا تصور رنگ رنگینیوں اور نشاط تک محدود نظر آتے ہیں۔لیکن میر حسن مثنوی ‘خواب و خیال’ میں عشق کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ عشق محض خوشی یا مسرت نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہے۔میر تقی میر کے یہاں بھی عشق و عاشقی کا یہی تصور پیش کیا گیا ہے۔اس میں صرف لذت و انبساط نہیں بلکہ قربانی و ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے۔عشق کا تصور مختلف شعرا کے یہاں مختلف ملتا ہے۔میر حسن نے پوری مثنوی ‘خواب و