مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
اک با وفا کا پیار جو ٹھہرا ہے آنکھ میں
ڈوبا خمارِ عشق میں، سہرا ہے آنکھ میں
اس زندگی کی چاہ کو کیسے نکال دوں
مجبور ہوں کہ یار کا چہرہ ہے آنکھ میں
آنکھوں میں اک بلا کی چمک آ گئی جہاں
جب حسن یار بڑھ کے بھی تہرا ہے آنکھ میں
بڑھتا گیا ہے شوق جو عشقِ نظیر سے
سب پوچھتے ہیں کون یہ گہرا ہے آنکھ میں
ممکن نہیں کہ بھول دوں حسن و جمال کو
اک چودھویں کی چاند کا پہرہ ہے آنکھ میں
مخمور چشمِ یار سے سحر زدہ
رکھا جو ایک خواب سنہرا ہے آنکھ میں
ہم پر وفائے عشق کا گہرا گمان ہے
لگتا ہے ان کے بغض کا پہرہ ہے آنکھ میں
ساقی کے ہاتھ سے پیوں دل کی ہے آرزو
جام شراب سا کوئی لہرا ہےآنکھ میں
دیوانگی عجیب ہے ارشدؔ نگاہ کی
جیسے کوئی خمار سا ٹھہرا ہے آنکھ میں
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
44