چلے ہم نوا رہ گئے ہم اکیلے
دل اکتا گیا رہ گئے ہم اکیلے
جدائی کے لمحے یہ کیسے کٹینگے
گئے دل ربا رہ گئے ہم اکیلے
کجا وہ محبت کہاں اب ملے گی
گئے باوفا رہ گئے ہم اکیلے
وہ الفت کی باتیں وہ پل پل مسرت
ہوئیں سب فنا رہ گئے ہم اکیلے
بہائیں گی تاعمر آنکھیں لہو اب
یہ تحفہ ملا رہ گئے ہم اکیلے
ہوئیں اپنی سنسان الفت کی راہیں
ہوئے ہیں جدا رہ گئے ہم اکیلے
کرم اس پہ ارشدؔ خدا کی عطا ہے
ہے رب کی رضا رہ گئے ہم اکیلے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

132