مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
وفا رائج کہانی ہو گئی ہے
محبت تو زبانی ہو گئی ہے
حیا جب آنی جانی ہو گئی ہے
شرافت پانی پانی ہو گئی ہے
مقید کر لیا سب کو ہوس نے
لگے دنیا دوانی ہو گئی ہے
وہ کرنے لگ گئے مجھ سے کنارہ
یہ کیسی مہربانی ہو گئی ہے
کہیں خوشیوں کا دم آتا نہیں ہے
پریشاں زندگانی ہو گئی ہے
کیا ہے جب سے ان کا نام شامل
غزل میں بھی روانی ہو گئی ہے
گرا کے نفرتِ دیوار ارشدؔ
وفا کی پاسبانی ہو گئی ہے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
109