کہدو اسے نوشتۂ دیوار چاٹ لے |
سایہ شجر نہ دے تو اسے جڑ سے کاٹ لے |
اک خون خوار تو نہیں لاکھوں یہاں وہاں |
اے عاشقی کنارہ ہو توشہء ٹھاٹ لے |
تھا بس میں جو اٹھانا وہ احساں اٹھا چکے |
بھولے ہوئے جو غم ہیں ابھی انکی واٹ لے |
ضعفِ جنوں کو اب ذرا در پیش ہیں الم |
ہستی، فنا قریب ہے مت ٹھاٹ باٹ لے |
دیوانگی کے دوش سے زنجیر جب ملی |
مشکل سہی یہ زندگی پر اس میں کاٹ لے |
اچھا نہیں یہ جوشِ جنوں روز روز کا |
ارشد نہ رونے دھونے کا، چپکے سے گھاٹ لے |
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی |
معلومات