اُٹھی ہے جب ترے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
کِھلا دیکھا ہے اک تازہ گُلاب آہستہ آہستہ
قیامت ہی نہ ہو جائے تری اس بے حجابی پر
نیا جو اُٹھ رہا تیرا شباب آہستہ آہستہ
بڑی پُر جوش چاہت سے لگے ہو چاہنے جاناں
اتر جائے نہ یہ تجھ سے ثواب آہستہ آہستہ
یہ بھڑکاتی ہے آتش کو تری نازک بیانی جو
ذرا دھیمی کرو یہ آنچِ تاب آہستہ آہستہ
محبت کے سمندر میں جو اترا ڈوب جاتا ہے
مگر آتا سمجھ اس کا حساب آہستہ آہستہ
مزاجِ شاعرانہ ہو مزاجِ عاشقانہ ہو
جمال آتا ہے لازم پر جناب آہستہ آہستہ
تماشا انجمن میں اب ترا ارشدؔ یوں لگتا ہے
مکمل ہو رہا تیرا یہ باب آہستہ آہستہ
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
72