| میں ہوں اک خاک کا ذرہ مری ہستی فقیرانہ |
| مثل تو چاند تاروں میں تری ہستی ہے شاہانہ |
| یہ دل ہے انکے پہلو میں تو جاں انکے ہی قدموں میں |
| متاعِ زندگی تب ہے ملے کوچہء جانانہ |
| میں ٹھکرایا ہوں در در کا لیے نالے چلا آیا |
| مری وقعت بھی کیا ہو گی میں خود سے ہوں جو بیگانہ |
| اگر اتنا میسر ہو تو پھر قسمت کے کیا کہنے |
| غنیمت ہے محبت میں ملے حکمء کریمانہ |
| اگر نظرء کرم ہو اس مرے دل کی حویلی پر |
| تو بہتر اس عنایت پر ہو برسوں کا یہ ویرانہ |
| تری شفقت نے بھٹکوں کو ہی بالآخر سنبھالا ہے |
| شفاعت کا کرم مجھ پر تری شانِ رحیمانہ |
| محبت بھی رضائے رب عداوت بھی رضائے رب |
| یہی ارشدؔ نے سیکھا ہے یہی فطرت کا پیمانہ |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات