کبھی خود کو رلاتا ہوں کبھی میں مسکراتا ہوں |
نبی کی یاد آتی ہے سلاماً جھوم جاتا ہوں |
کبھی آلام ہوتے ہیں کبھی انعام ہوتا ہے |
تڑپ کر یاد کے اندر انہیں خوابوں میں پاتا ہوں |
امیدیں رقص کرتی ہیں وفائیں ناز کرتی ہیں |
ترے نقشِ قدم پر خود کو جب بھی آزماتا ہوں |
مری تنہائیوں کی تو، نبی کے دم سے رونق ہے |
اسی عکسِ محبتکو دل و جاں میں بٹھاتا ہوں |
مزہ بھی خوب ہوتا ہے جلا بھی خوب ملتی ہے |
میں نغمے آپ کے ہر بزم میں جا کر سناتا ہوں |
ترا احسانِ رحمت ہے کرم دل پر برستے ہیں |
ترا بن کر میں دیوانہ خودی خود سے مٹاتا ہوں |
بجا کوئی نہیں آتی ، ہوں تقریریں کہ تدبیریں |
ترا اظہار لکھ لکھ کر ہی شعروں میں سناتا ہوں |
تری الفت کی بیتابی سراپا ناز ہے آقا |
اسی سے عشق کی راہیں بخود ارشدؔ سجاتا ہوں |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات