| تصور سے نہیں جاتے چھپاؤں میں فغاں کیسے |
| نمک چھڑکا ہے کس کس نے سناؤں رنجشاں کیسے |
| نہ وہ باتیں نہ وہ چاہت جدائی کی گھٹائیں ہیں |
| کہ ہم ہیں کس اذیت میں سنائیں داستاں کیسے |
| سنہرا خواب ہے دنیا کہیں خوشیاں کہیں پر غم |
| یہاں ہے دل لگی کیسی کریں ہم یہ بیاں کیسے |
| کہ بس یہ جان جانی ہے سبھی کو موت آنی ہے |
| بچائیں گے بتاؤ پھر زمین و آسماں کیسے |
| ابھی تو خلقتِ آدم دوامی کے ہیں منصوبے |
| گئے ہیں یار ارشدؔ سب رہیں گے ہم یہاں کیسے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات