لاکھ چاہوں مگر نہیں جاتا
دل سے ان کا اثر نہیں جاتا
عشق جلوت نما ، عبادت ہے
ورنہ خلوت سے ڈر نہیں جاتا
موت سر سے گزر بھی جائے تو
عشق سر سے اتر نہیں جاتا
جب سے دیکھا ہوا ہےخلوت میں
تب سے دردِ جگر نہیں جاتا
یوں تو دیکھی ہیں بےشمار آنکھیں
دل سے رشکِ نظر نہیں جاتا
وہ خیالوں پہ چھائے رہتے ہیں
حسنِ ظن ہے کہ مر نہیں جاتا
نین اور نقش اس قدر جاذب
دیکھ ارشدؔ بھی گھر نہیں جاتا
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
62