فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
کہیں فصل گل ہے کہیں بدظنی ہے
کٹے جا رہا ہوں عجب زندگی ہے
سمجھ سے ہے بالا عوامی کدورت
محبت میں ضد کی جو بو آ رہی ہے
یہاں سانپ بھی آستینوں میں پلتے
نہ غم اور خوشی کی سمجھ آ رہی ہے
اکھٹے تھے گرچہ ، میاں، باپ، دادا
محبت ہماری بٹی جا رہی ہے
سنو اندھی تقلید کے پاسبانوں
سیاست کے پیچھے سیاست پڑی ہے
اگر سوچ ہے ہوش میں آ بھی جاؤ
قیامت کے فتنوں میں امت کھڑی ہے
مسالک کے چکر یہ فرقوں کا شوشا
یہ امت نبی کی بٹی جا رہی ہے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
23