پھول نکلے دشت میں، چرچا ترا ہوتے ہوئے |
آپ کے نعلین کا صدقہ ملا ہوتے ہوئے |
ہم نے دیکھا آپ کی آمد پہ رحمت کا نزول |
بند در وا ہو گئے، دل نم لگا ہوتے ہوئے |
خوف، محرومی اندھیرے تھے جہاں میں چار سُو |
آپ آئے چاند چہرہ رو نما ہوتے ہوئے |
ہم گناہوں میں تھے لپٹے، آپ سے جو دور تھے |
پھر بھی ملتی ہیں رہی ہم کو دُعا، ہوتے ہوئے |
کیوں نہ ملتے التجا کس کی تھی کس کے سامنے |
عمر یک دم آ گئے محوِ دعا ہوتے ہوئے |
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو درویش کو |
ہم نے دیکھے ان کے عاشق پارسا ہوتے ہوئے |
کیا لکھے ارشدؔ کہ کچھ، یہ لفظ بھی چپ سے ہوئے |
جب تصور میں ملے نقشِ قُبا، ہوتے ہوئے |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات