مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
مری مشکل سہولت کی نذر جاتی تو اچھا تھا |
رواں ہستی ہماری بھی سنور جاتی تو اچھا تھا |
جو تجھ سے مل کے آ جاتی سکونِ دل بھی آ جاتا |
وہی چھو کر ہوا مجھ کو گزر جاتی تو اچھا تھا |
مری بے چین نظروں سے ترا مجھ سے جدا ہونا |
نہ اس پر یوں زمانے کی نظر جاتی تو اچھا تھا |
ہمارے پیار کا گلشن ابھی تک تو خفی میں ہے |
ذرا خوشبو محبت کی نکھر جاتی تو اچھا تھا |
ابھی دل کو قرار آیا نہ جاؤ چھوڑ کر جاناں |
جو دل پر چھائی بیتابی اتر جاتی تو اچھا تھا |
نکلتے ہیں مرے آنسو تو نظروں کو چھپاتا ہوں |
زمانے کی جو ہٹ مجھ سے نظر جاتی تو اچھا تھا |
نمازِ عشق جو ارشدؔ تھی باقی ہے ادا کرنی |
قضا جو تیرے سر پر تھی اتر جاتی تو اچھا تھا |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات