مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مری مشکل سہولت کی نذر جاتی تو اچھا تھا
رواں ہستی ہماری بھی سنور جاتی تو اچھا تھا
جو تجھ سے مل کے آ جاتی سکونِ دل بھی آ جاتا
وہی چھو کر ہوا مجھ کو گزر جاتی تو اچھا تھا
مری بے چین نظروں سے ترا مجھ سے جدا ہونا
نہ اس پر یوں زمانے کی نظر جاتی تو اچھا تھا
ہمارے پیار کا گلشن ابھی تک تو خفی میں ہے
ذرا خوشبو محبت کی نکھر جاتی تو اچھا تھا
ابھی دل کو قرار آیا نہ جاؤ چھوڑ کر جاناں
جو دل پر چھائی بیتابی اتر جاتی تو اچھا تھا
نکلتے ہیں مرے آنسو تو نظروں کو چھپاتا ہوں
زمانے کی جو ہٹ مجھ سے نظر جاتی تو اچھا تھا
نمازِ عشق جو ارشدؔ تھی باقی ہے ادا کرنی
قضا جو تیرے سر پر تھی اتر جاتی تو اچھا تھا
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
2
224
دوسرے شعر میں عمر کو بروزن ف عل باندھا ہے جو درست نہیں۔ اس پر نظر ثانی فرما لیں۔

رواں ہستی ہماری بھی سنور جاتی تو اچھا تھا