| پیار کی کہانی ہے اشکوں کے زبانی میں |
| لکھنے کو قلم قاصر چیختی بیانی میں |
| ہونٹوں کی خموشی پر طوفاں بسری یادوں کا |
| صرف درد باقی ہیں، پلکوں کی روانی میں |
| چھینے ہیں مقدر نے میرے خواب جو دیکھے |
| کیا ہی رکھ دیا تُو نے، دل کی اس نشانی میں؟ |
| خوشبو سی بکھرتی ہے تیری آہٹوں سے جو |
| صورہ سی بناتا ہوں تیری ہی نشانی میں |
| سہل تھے جو تیرے دکھ بن گئے وہ دوبھر اب |
| جو ہوئے تجھے حاصل عشق کی کہانی میں |
| عمر جو کبھی ارشدؔ موجِ تھی مسرت بھی |
| اب تو ڈھونڈتا ہوں میں اُس کو لمحوں فانی میں |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات