| کہاں پر کھڑے تھے کہاں اب کھڑے ہیں |
| یہ کس کی خطا ہے کہ بکھرے پڑے ہیں |
| کوئی ابنِ قاسم ہی آ کر اُکھاڑے |
| وطن میں سیاست کے پنجے گڑے ہیں |
| سیاسی سمندر میں ڈوبی ہے کشتی |
| غریبوں کے بچے بھنور میں اڑے ہیں |
| یہ غدارِ ملت کی ہے کار سازی |
| مہا دیس میں بھائی بھائی لڑے ہیں |
| نہ دیکھا اجالا کسی آ گہی کا |
| دیے تو وفاؤں کے اکثر گڑھے ہیں |
| لگایا ہوا کس نے بتی کے پیچھے |
| کہاں کے نگینے کہاں پر جڑے ہیں |
| سمجھنےکی باتیں ہیں عاقل ہی سمجھے |
| بصیرت سے خالی سیاسی دھڑے ہیں |
| کیا پار لائیں گے تم کو یہ ارشدؔ |
| یہ دریا کنارے جو کچے گھڑے ہیں |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات