پی کے چلے ہیں جامِ شہادت ظہیر جی
مقبول ہو گئی ہے ریاضت ظہیر جی
بھولے کہاں تمہاری رفاقت ظہیر جی
داغء مفارقت ہے قیامت ظہیر جی
کب تجھ کو روک سکتی تھیں دنیا کی طاقتیں
تیری امیدوار تھی جنت ظہیر جی
تجھ کو نصیب ساقیِ کوثر کا جام تھا
لاریب پائی آقا کی نسبت ظہیر جی
ارشاد تیری یاد میں عبد العزیز کا
غمگین کر گئی تری فرقت ظہیر جی
ذیشان تیری یاد میں غمگین ہے بہت
جاتی نہیں گمان سے صحبت ظہیر جی
چہرے کا یہ سکون بتاتا ہے دم بہ دم
نایاب رب سے پائی ہے دولت ظہیر جی
کس شان سے چلا ہے یہ حرکت کا جاں نثار
انصار کی مثال ہے عادت ظہیر جی
پانے کو یہ مقام تو گھوما کہاں کہاں
ارشد قریب سے ملی چاہت ظہیر جی
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی

0
23