دیکھا جہان خوب جہاں تک نظر گئی |
اس جسمِ کائنات میں ہستی گزر گئی |
تھا منزل ابد کے چراغوں کی کھوج میں |
جوں ہی بجھے چراغ تو جیسے نظر گئی |
رستہ بدل کے چلنے کا سوچا نہ تھا کبھی |
لیکن جو بر خلاف تھی میرے خبر گئی |
اس نے کمال کر دیا دستِ کمال سے |
میری ہی تیغ تھی مرے پر وار کر گئی |
گزری شبِ فراق کی وحشت عجیب تھی |
جو آہ نکلی کاٹتی تیرء جگر گئی |
ذکرِ شبِ فراق وہ سن کر فدا ہوئے |
طوفان سی یہ موج مرا کام کر گئی |
ظاہر ہوا کہ ویسے تھیں جھوٹی شکایتیں |
سازش عدو کی خوب ہی کرتی اثر گئی |
کچھ درد بانٹنے کا سلیقہ نہ تھا کوئی |
ارشدؔ اسی خیال میں ضائع عمر گئی |
معلومات