سلگ رہا ہوں کہ جس حسنِ ماہْتاب سے میں |
کبھی سکون نہ پایا ہے آنجَناب سے میں |
کبھی کباب سے بہکا نہ تو شَراب سے میں |
بہک گیا ہوں فقط حسنِ حِجاب سے میں |
مرے لہو سے رقم ہیں تمام تاریخیں |
ڈرا ہوا ہوں زمانے تری کِتاب سے میں |
ترے فراق کی راتیں مجھے ستاتی ہیں |
فلک سے خیر گریزاں نہ آفْتاب سے میں |
حسین خوب مناظر اگرچہ دیکھے ہیں |
نمٹ رہا ہوں ابھی دشتِ دل سَراب سے میں |
تمہاری یاد سے ایسا نڈھال ہوں اب تک |
لڑا ہوں خواب سہانے، لڑا شَِہاب سے میں |
سہارتا ہے جہاں میری حسرتوں کو ابھی |
ہوا ہوں خوب متاثر ترے خِطاب سے میں |
تری جو سانس کی خوشبو مجھے رلاتی ہے |
تو سیر ہوتا ہوں ارشدؔ فقط حُباب سے میں |
معلومات