محبت کی بہاروں میں،میں ایسا دل لگا بیٹھا |
پرائے درد سب اپنے ہی دامن میں چھپا بیٹھا |
مری آنکھوں کے اشکوں نے کیا سیراب پیمانہ |
جو چھلکا جام الفت کا دل اپنا میں لٹا بیٹھا |
غرورِ حسن کو تیری وفاؤں نے مٹا ڈالا |
جو تیرے غم مٹانے کو اٹھا دستء دعا بیٹھا |
مری منزل ادھوری ہے مرے قصے نرالے ہیں |
بسا بیکار سی عادت ہے محفل میں سنا بیٹھا |
ہمیشہ نیچ لوگوں سے ملے ذلت کی بیزاری |
جسے دیکھا اداسی میں اسے اپنا بنا بیٹھا |
کہیں قصے جفاؤں کے کہیں نغمے وفاؤں کے |
یہ آدم زاد باغی ہے خودی اپنی لٹا بیٹھا |
خطا میری ہی تھی ارشد سرِ محفل ہوا رسوا |
رقیبوں کو میں جسدم رازداں اپنا بنا بیٹھا |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات