جواب آنسو ، سوال آنسو
درونِ مژگاں سنبھال آنسو
غمِ گزر کا وِصال آنسو
مثالِ ابرِ ، خصال آنسو
جو تر گریباں میں جذب ہو کر
نہاں رہیں بے مِثال آنسو
وفائے کامل قبولِ ٹھیسیں
عزیمتوں کے کمال آنسو
برس پڑے ہوں بجز ندامت
یہ حسنِ ظن یا جَمالِ آنسو
وہ یاد آئے جو اس ارادے
تو چھینک پر بھی نکال آنسو
ہو دل کا اسمیں جو خون شامل
تو نکلے آنکھوں سے لال آنسو
جو آبگینوں میں جذب ہیں تو
کہاں رہے پھر بحال آنسو
بڑے ہیں نایاب دیکھ ارشدؔ
فضول مت اب نِکال آنسو
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
42