اے میرے خدا ایسی مجھے تیغ عطا ہو |
جس تیغ سے ہر لشکرِ کفار فنا ہو |
بھولا ہوا وہ درسِ وفا پھر سے ادا ہو |
دربار میں تیرے مری محبوب دعا ہو |
جینے کے لیے کوئی ہنر ڈھونڈ رہا ہوں |
حسرت ہے مری سر یہ مرا ان پہ فدا ہو |
جو بھی پڑھے ہو جائے وہ مستان گرفتہ |
درویش کے اسباق میں وہ درسِ بقا ہو |
آہوں کو لیے اپنی تو سجدے میں جبیں رکھ |
پھر کر کے گزر عشق میں جو امر ملا ہو |
ہو کش مکشِ عشق میں وہ جذبِ محبّت |
حالت جو مری دیکھے تو بولے کہ بھلا ہو |
بازارِ خریدار میں ارشدؔ بھی ہو انمول |
ایثار کی خاطر اگر اِس کو چُنا ہو |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات