دوانہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے
غرورِ عشق توڑا ہے کسی نے
سراپا ناز تھے ہم بھی تو لیکن
محبت میں نچوڑا ہے کسی نے
زمیں کے ہیں نہ تو ہم آسماں کے
کہاں پر لا کے چھوڑا ہے کسی نے
نہ مانے ہے دلِ ناشاد اب جو
بھرم اس طرح توڑا ہے کسی نے
رہائی کی امیدیں اب نہیں ہیں
قفس میں بند چھوڑا ہے کسی نے
امیدیں تھیں کہ جاؤں پار لیکن
ڈبویا آسی ہوڑا ہے کسی نے
نہ ان کی بزم تک، کوئی رسائی
رخِ دلبر کو موڑا ہے کسی نے
کسے فریاد ارشدؔ ہم سنائیں
زباں کو سِل کے چھوڑا ہے کسی نے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

141