دوانہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے |
غرورِ عشق توڑا ہے کسی نے |
سراپا ناز تھے ہم بھی تو لیکن |
محبت میں نچوڑا ہے کسی نے |
زمیں کے ہیں نہ تو ہم آسماں کے |
کہاں پر لا کے چھوڑا ہے کسی نے |
نہ مانے ہے دلِ ناشاد اب جو |
بھرم اس طرح توڑا ہے کسی نے |
رہائی کی امیدیں اب نہیں ہیں |
قفس میں بند چھوڑا ہے کسی نے |
امیدیں تھیں کہ جاؤں پار لیکن |
ڈبویا آسی ہوڑا ہے کسی نے |
نہ ان کی بزم تک، کوئی رسائی |
رخِ دلبر کو موڑا ہے کسی نے |
کسے فریاد ارشدؔ ہم سنائیں |
زباں کو سِل کے چھوڑا ہے کسی نے |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات