فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
مدینے کو جاتے تو کیا بات ہوتی
نگاہوں کو حاصل کرامات ہوتی
ہمیں گر مدینے میں لے جاتی قسمت
وہاں دن گزرتے وہاں رات ہوتی
مٹاتے وہاں روح کی تشنگی کو
یہی کاش پوری مناجات ہوتی
بصارت مدینے کی میری نظر میں
سماتی تو نغموں کی برسات ہوتی
ہم انکے کرم سے حرم دیکھ لیتے
جہاں ابرِ رحمت کی برسات ہوتی
زباں سے صفاتِ محمد کا قصہ
بیاں کرتے کرتے ، ملاقات ہوتی
مزہ زندگانی کا آ جاتا ارشدؔ
جو قدموں میں انکے مری مات ہوتی
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

118