ہم ٹٹولے ہوئے سب جہاں ہیں
کرنے والے محبت کہاں ہیں
انگلیاں اٹھ رہی ہیں جہاں کی
بدلے بدلے ہوئے مہرباں ہیں
دل سے دل کا تعلق بھی روٹھا
اب نہ جذبہ، نہ ویسی فغاں ہیں
دھوپ ہے، سایہ کم ہو چکا ہے
نخل بھی تھک چکے، بے زباں ہیں
کب چراغوں میں اُترے گا جلوہ؟
سب دریچے تو بند آستاں ہیں
خود پرستی کا ایسا ہے پردہ
آئنے بھی خفا، بے نشاں ہیں
ہم نے مانا خطا ہو گئی ہے
غور والے بتاؤ، کہاں ہیں؟
بات ارشدؔ سے کیوں پوچھتے ہو
میرے اپنے بھی سب بد گماں ہیں
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
5